School se college tak ka safar

                    

       

                             بہت

 عرصے بعد قلم اٹھانے کا موقع ہوا ۔افف شبد تو بہت ہیں۔    مگر شروعات کہاں سے کروں سمجھ نہیں آتا۔ وہ کہتے ہیں‌نہ تحریر

 جب لکھنے بیٹھ جاؤں تو الفاظ کے سمندر میں کھو جاتے ہیں۔زندگی اۓ دن ہمیں بہت کچھ سیکھا تے چلے جاتی ہے ۔ اور ہم اسی سیکھ میں الجھ گئے ہوتے ہیں ۔۔ کہتے ہیں کہ کسی انسان کی اکیلے میں دی گئی نصیحت انسان کو بہت متاثر کرتی ہیں ۔۔ اور ایسے کئ شخصیات ہیں جنہوں نے مجھے تراش کر جوہر بنادیا ۔۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں دو ماہ کے لۓ کلاسس لینے گئ تھی اور ان دو ماہ کے آخر میں اس اساتذہ(گلشدہ) نے کہا تھا ۔۔ یوں تو بہت سارے بچے اۓ کلاسس لینے پر تمہاری بات کچھ اور تھی۔۔ ہو سکتا ہے آگے تمہیں اور اچھے استاد مل جائے ۔ پر تم جیسی شاگرد مجھے اور نہیں مل سکتی ۔ پھر مجھے ساتویں جماعت کے لئے انجمن جانا پڑا ۔ وہاں میری ملاقات دوسرے اساتذہ سے ہوئی ۔۔ ایک سال مکمل ہونے کے بعد ہمارا آخری دن تھا ۔۔ اس وقت سارے بچے ایک دوسرے کے یونیفارم پر سگنیچر ڈال رہے تھے ۔۔۔ اسی موج مستی میں جب کلاس ٹیچر(قدسیہ )اندر داخل ہوئ تو سبھی خاموش ہوگئے اور باری باری ان سے الوداعی ہاتھ ملانے لگے۔ میں جب ہاتھ ملا کر واپس مڑنے لگی تو انہوں نے میرا ہاتھ یوں ہی مضبوطی سے پکڑے ہوئے غور سے تک رہی تھیں ۔۔ ان کے چہرے پہ ایک افسردگی تھیں ۔۔ انہوں نے مجھ سے مؤدبانہ انداز میں کہا ۔۔ساجی تم ایک سال کیلئے یہاں ائ اور جاتے جاتے بہت سی یادیں دے گئ۔۔ اللہ تمہیں مزید ترقی دے۔۔ آج بھی ان کا وہ نم دارچہرہ یاد ہے ۔۔پھر ہائ اسکول کا سفر۔۔۔۔ وہاں بھی بہت سے اساتذہ ملے۔۔ مگر کچھ کا ساتھ آج بھی قائم ہیں ۔۔ آج بھی مجھے اپنے کلاس ٹیچر (اسماء)کی وہ بات یاد ہے ۔۔ جب میں آٹھویں جماعت میں تھی تو وہ اکیلے میں انہوں نے مجھ سے کہا تھا ۔۔۔ دیکھو بیٹا۔۔ تم ابھی چھوٹے ہو ۔۔تم نے ابھی دنیا نہیں دیکھی ۔۔ جب بڑے ہو جاؤگے تو دنیا کیسی ہے؟ دنیا کے لوگ کیسے ہیں ۔۔ میری عمر کو جب پہنچ جاؤگے تو تب پتہ چلے گا ۔اس لۓ پڑھائی پر دھیان دو۔۔ ۔۔یہ بات آج بھی یاد ہے مجھے ۔۔ آج سوچوں تو لگتا ہے‌ کہ کاش وہ پل وہی رک جاتا ۔۔‌اور ہم بڑے ہی نہ ہوتے۔۔ لیکن ان کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہوگئ۔۔ واقعی آہستہ آہستہ دنیا سمجھ آنے لگی۔ وہ کہتے ہیں‌نہ ٹھوکریں انسان کو بہت کچھ سیکھاتی ہیں ۔۔ اور‌ ایک استاد تھی (نسرین)جو ہمیں انگلش مضمون لیتی تھی ۔۔‌افف ان کی محبت کا کیا کہنا ۔۔ انہوں نے نویں جماعت میں زبردستی پرنسپل سے ہمارا کلاس چنا تھا ۔۔ کیونکہ مجھے وہی چاہیے تھی ۔۔مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا ۔۔ دسویں جماعت میں سارے طلبات کو دوسرے ہائی سکول میں منتقل کیا گیا ۔۔ کچھ اساتذہ ہمارے ساتھ ٹرانسفر ہو گئ۔۔ کچھ کو وہی رکھا گیا۔۔ ہماری کلاس ٹیچر تو آ گئیں پر افسوس انگلش ٹیچر وہی رہ گئی ۔ انہوں نے کہا تھا ساجی اب تو تم مجھے ضرور بھول جاؤں گی ۔۔۔ دسویں جماعت کا سفر میرے لیے اتنا آسان نہیں تھا ۔۔ زندگی میں بہت نشیب وفراز آ ۓ۔ کلاس میں فرسٹ آنے والی لڑکی اچانک ایک سانحہ نے اسے پیچھے ڈھکیل دیا ۔۔ فائنلس کی تیاریاں زوروشور پر تھی ۔۔ پر یقین مانو میرا پڑھائی پر دھیان بالکل نہیں تھا ۔۔ میں کلاس میں ٹوٹی بکھری بیٹھی تھی ۔۔ پر وہ کہتے ہیں‌نہ استاد ماں کا دوسرا روپ ہوتی ہیں ۔۔ میری کلاس ٹیچر(اسماء) نے مجھے نوٹسز کیا ۔۔ انہوں نے مجھ سے آکر پوچھا تو میں زاروقطار رونے لگی۔۔‌جیسے اندر کا طوفان اچانک سے باہر آگیا ہوں ۔۔‌انہوں نے مجھے اپنی بیٹی کی طرح حوصلہ دیا۔۔۔ اور کہا کہ ساجی تمہیں ہارنا نہیں تمہیں مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا کہ تم امتحان کی تیاری اچھے سے کروگی۔ افف ان کے وعدے نے مجھے ہمت دی اور جیسے تیسے کر کے میں نے امتحان دے دیا۔۔ پر انہوں نے یہ بات سارے کلاس کے سامنے کہی تھی کہ کبھی بھی اپنی اولاد کسی کو مت دینا۔۔ چاہے انھیں کم کھلاۓ پر اپنے علاوہ کسی اور کو مت سونپنا۔۔ ورنہ دونوں خاندانوں کے جکڑے میں نقصان ہمیشہ اولاد کا ہوتا ہے ۔۔۔ اور واقعی یہ بات مجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا ۔۔۔ دسویں جماعت کا الوداعی دن افف پھر سے اساتذہ کو چھوڑنا ۔۔۔ تبھی ہماری نئ انگلش ٹیچر(تبسم) آئ اور سارے کلاس کو کہنے لگیں کہ سبھی ایک پیپر نکالو۔۔ اور اس سال میں جو بھی اچھا ہوا اور جو بھی برا ہوا اس پیپر میں لکھ دو۔۔  کوئ جھوٹ نہیں ۔۔۔ تو بلآخر مجھے لکھنا پڑا ۔۔۔ ویسے تو ادھورا تھا ۔۔ پر میرے کاغذ میں گرے آنسو کے قطرے نمایاں ہو رہے تھے ۔۔ جو انھوں نے سمجھ لۓ۔ سارے طلبات کے کاغذات پڑھے۔۔ اور سب کو صلاح دی۔۔ اور جب میری باری آئ تو انہوں نے کہا ۔۔ ساجی ۔۔ چاہے دنیا کے لوگ جو بھی کر لے۔۔ مگر تم ہمیشہ اچھی لڑکی بن کے دیکھاؤگی ۔ پہلے تو میں نے کچھ نہیں کہا۔۔ پھر ان کے اصرار پر حامی بھرنی پڑی ۔۔ آج اگر وہ ٹیچر کبھی مل جائے تو بتادوں انہیں کہ ہمیشہ آچھا بننے کی کوشش نے لوگوں کے سامنے بُری بن گئ ۔ کبھی کبھار زیادہ آچھا بننا بھی انسان کو نقصان پہنچا دیتی ہیں ۔۔ ان کے اسی وعدے نے مجھے کبھی بُرا نہیں بننے دیا۔۔ اور لوگ اسی چیز کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگے ۔۔۔ خیر ان کی باتوں میں کوئ نہ کوئ مصلحت چھپی ہوگی۔۔ 

آخر پی یو سی کا سفر شروع ہوا۔ مجھے لکھنے کا شوق وہی سے شروع ہوا۔۔ اور میں لکھنا شروع کردی۔۔ وہاں میری ملاقات فرزانہ میم سے ہوئ۔۔ کبھی کبھار وہ میرے مضمون پڑھ کر مجھے حوصلہ افزائی دیتی ۔۔ تھوڑی بہت ان سے بھی متفق ہونے لگی۔۔۔ کیونکہ دونوں کا لگاؤ اردو مضمون سے کافی گہرا تھا۔۔ ان کے تحریروں اور ان کے باتوں سے مجھے استفادہ حاصل ہوا۔۔۔ خیر پی یو سی کے بعد ڈگری کالج شفٹ ہو گئ۔۔ فرزانہ میم کے اصرار پر میں نے سائیکلوجی کے بدلے آپشنل اردو مضمون کو لینا پڑا ۔۔۔ پر وہ کہتے ہیں نہ کہ ایک شاگرد کو اساتزہ کے علاوہ کوئ نہیں سمجھ سکتا ۔۔۔ تو وہاں میری ملاقات اردو(شاہدہ )اور ایجوکیشن ٹیچر(میناوتی) سے ہوئی ۔۔۔ افف ڈگری کے وہ دو سال جیسے میری زندگی کے انمول لمحے تھے۔۔ جو میری آنکھوں میں آج ہی سموۓ ہوۓ ہیں۔۔ میری اردو میں بہتری بھی ہو گئ۔۔ اور استاد کے ساتھ کے باعث میں کامیاب ہوتے گئ۔۔۔

میرا بی۔اے سکینڈ ائیر کا آخری اختتام چل رہا تھا ۔۔۔ اور میری سگائ ہو گئی ۔۔ اساتذہ نے مبارکباد دئے۔۔ پر افسوس میری شادی دو مہینے بعد منعقد ہوگیں ۔ اس سے میرے اساتذہ کا دل چھوٹا ہو گیا۔۔۔ اور کئ حد تک میرا بھی ۔۔۔

کیونکہ وہ میرے زندگی کے مضبوط بازو تھے۔۔ آخری آخری ٹائم میں مجھے پرنسپل نے سالانہ رپورٹ لکھنے کا کام دیا۔۔ جب سارے طلبات گھر چلے جاتے تو میں اپنی اردو ٹیچر کے ساتھ مل کر رپورٹ تیار کرنے میں مصروف ہو جاتی۔۔ اسطرح ہمارا رشتہ اور قریب ہو گیا۔۔۔ وہ لمحہ میرے لئے بہت انمول تھا۔۔ کیونکہ اسٹاف روم میں سارے اساتذہ کے درمیان میں اکیلی اسٹوڈنٹ تھی۔۔ اس لئے باقی سارے ٹیچرز سے میری پہچان ہوگئ ۔ تین چار دنوں میں میرا رشتہ سب سے گہرا ہوگیا ۔۔آخر ہماری رپورٹ تیار ہو گئ اور پرنسپل نے تعریفوں سے نوازا ۔۔۔ اسی دوران ہمارے اینول فنکشن کا آغاز ہوا تو پرنسپل نے مجھے ایک اور مشکل کام دے دیا۔۔۔ انہوں نے ایک عنوان دیا اور کہا کہ اس میں تمہیں دڑامہ لکھ کر پیش کرنا ہے۔۔ دو دن کی مہلت تھی میرے پاس ۔۔ اور مجھے وہ ڈرامہ پیش کرنا تھا۔۔ سچ کہوں تو میرے لئے بہت مشکل تھا۔۔ کیونکہ دڑامہ میں اپنی زندگی میں پہلی بار لکھ رہی تھیں ۔۔ خیر دو دن میں میں نے تیار کر لیا ۔۔۔ اور سارے ٹیچرز کے سامنے پیش بھی کر دیا۔۔ اور فائنل کے لئے سلیکٹ بھی ہو گیا ۔۔ یہ میری زندگی سب سے بڑی کامیابی تھی ۔۔ اور جن لڑکیوں نے اس ڈرامے کے کردار کو نبھایا ان کی میں ممنون ہوں۔۔ پتہ نہیں کیوں وہ آخری لمحات میں میرے اندر اچانک تبدیلی کہاں سے آگئی ۔۔شائد جو انسان میری زندگی میں شامل ہوا تک نہیں اس کے ساتھ کا گمان مجھے پختہ کر رہا تھا ۔۔۔ اس وقت میری ایجوکیشن ٹیچر سے کافی گہری دوستی ہوگئی ۔۔۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ پتہ نہیں میں اگلے سال یہاں رہونگی یا نہیں ۔۔ اس لئے آج ان لمحوں کو انجوائے کرنا چاہتی ہوں۔۔ وہ کہتے ہیں‌نہ کبھی کبھار ہماری زبان سے ادا کۓ گۓ الفاظ فوراً قبول ہو جاتے ہیں ۔۔۔ آخری ٹائم تھا ۔۔۔ شادی کو ہفتہ باقی تھا ۔۔۔ میں نے سب سے الوداعی ہاتھ ملایا ۔۔ اس وقت پرنسپل نے مجھ سے کہا تھا ۔۔ تمہیں اگلے سال کسی بھی حالت میں جوائنٹ ہونا ہے۔۔ تمہیں زندگی میں اور بھی آگے جانا ہے۔۔ ابھی تم شروعات میں ہو۔۔ اور بھی تحریریں لکھنے باقی ہیں۔۔ ہم تمہاری مدد کریں گے ۔۔ خیر مجھے کیا پتہ۔۔ وہ میری زندگی کا آخری سنہرا دور تھا ۔۔۔ اور میرا عروج ہونے سے پہلے زوال ہو گیا ۔۔ مگر آج کالج کے نو سال بعد جب وہ لمحے یاد کروں تو میرے آنکھوں میں نمی کے علاوہ لبوں پہ ہلکی مسکراہٹ سی آ جاتیں ہیں ۔۔۔ پچھلے سال جب میں اساتذہ سے ملاقات کے لئے گیئ تو جو انہوں نے بے پناہ عزت دی۔۔ شائد کسی نے اتنی عزت مجھے اج تک دی ہو۔۔۔ وہ کہتے ہیں‌نہ عزت سب سے انمول ہوتی ہے۔۔۔ آج بھی مجھے کبھی پریشانی محسوس ہو جائے تو میں اپنی اساتذہ سے رابطہ کر لیتی ہوں۔۔ اور ان کے ہر فیصلے کو دل سے تسلیم کرتی ہوں۔۔ بے شک میری زندگی میں اساتذہ نے مجھے صرف علم کی روشنی سے مالامال نہیں کیا۔ بلکہ میری صلاحیتوں کو نکھار کر مجھے ہیرا بنا دیا۔۔ انہوں نے مجھے سکھایا کہ کبھی کبھار انسان کو  سہارا دینے کے لئے ساتھ سے زیادہ ہمت دینے والے جملوں کی ضرورت ہوتی ہیں ۔۔۔ ان سے یہ بھی سیکھ حاصل کیں کہ کسی کو ان کی خامیوں پہ رسواء کرنے کے بجاۓ اکیلے میں ان کی اصلاح کرے ۔۔۔ ۔۔


اب آپ بتائیں اس حقیقت آموز کہانی سے کیا سبق حاصل کیا۔۔۔؟

       


                  ____saji___,,,

Comments

Post a Comment